3: لاش_2

لاش -2 

Chapter 3 Feature Image

"کیا بکتے ہو!" فیاض بڑبڑایا۔

"ناپ کر دیکھ لو میری جان! اگر غلط نکلے تو میرا قلم سر کر دینا....آں.... شائد میں غلط بول گیا.... میرے قلم پہ سر رکھ دینا...."عمران نے کہا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور پھر جھک کر زخموں کا درمیانی فاصلہ ناپنے لگا! فیاض اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

”لو" عمران اسے تنکا پکڑا تا ہوا بولا۔ "اگر یہ تنکا پانچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈاڑھی تلاش کرنا۔"

"مگر اس کا مطلب!“ فیاض کچھ سوچتا ہوا بولا۔

"اس کا مطلب یہ کہ قاتل و مقتول دراصل عاشق و معشوق تھے۔“

"عمران پیارے، ذرا سنجیدگی سے۔“

"یہ تنکا بتاتا ہے کہ یہی بات ہے ۔“ عمران نے کہا۔ ”اور اردو کے پرانے شعراء کا بھی یہی خیال ہے۔ کسی کا بھی دیوان اٹھا کر دیکھ لو! دو چار شعر اس قسم کے ضرور مل جائیں گے جن سے میرے خیال کی تائید ہو جائے گی۔ چلو ایک شعر سن ہی لو ـ

موچ آئے نہ کلائی میں کہیں سخت جاں ہم بھی بہت پیارے "

”مت بکواس کرو۔ اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو صاف صاف کہہ دو۔“ فیاض بگڑ کر بولا۔

"فاصلہ تم نے ناپ لیا! اب تم ہی بتاؤ کہ کیا بات ہو سکتی ہے“ عمران نے کہا۔

فیاض کچھ نہ بولا۔

”ذرا سوچو تو ۔“ عمران پھر بولا۔ ” ایک عاشق ہی اردو شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بنا کر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرنے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جو مزاج یار میں آئے...."

"پرانی شاعری اور حقیقت میں کیا لگاؤ ہے؟" فیاض نے پوچھا۔

"پتہ نہیں۔“ عمران پر خیال انداز میں سر ہلا کر بولا۔ ”ویسے اب تم پوری غزل سنا سکتے ہو۔ مقطع میں عرض کر دوں گا۔“

فیاض تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بولا۔ ”یہ عمارت تقریباً پانچ سال سے خالی رہی ہے!...ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کیلئے اسے کھولا جاتا ہے“

"کیوں؟“

"یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے۔“

"چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔" عمران نے پوچھا۔

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ جن لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اور ان سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو قبر کی دیکھ بھال کر لیا کرے!.... یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی۔ بہر حال آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی۔“

"تالا بند تھا؟" عمران نے پوچھا۔

"ہاں۔ اور وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کیلئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں اس قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناء پر کہا جا سکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو۔“

"تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ”بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کرو جس کی قبر ...."

"پھر بہکنے لگے!" فیاض بولا۔

"اس عمارت کے مالک کون ہیں اور کیسے ہیں؟" عمران نے پوچھا۔

"وہی میرے پڑوس والے حج صاحب۔“ فیاض بولا۔

"ہائے وہی جج صاحب!" عمران اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ہونٹ چاٹنے لگا۔

"ہاں وہی....یار سنجیدگی سے....خدا کے لئے۔“

”تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔" عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔

”کیوں“

”تم نے میری مدد نہیں کی؟“

” میں نے ۔“ فیاض نے حیرت سے کہا۔ "میں نہیں سمجھا۔“

”خود غرض ہونا۔ بھلا تم میرے کام کیوں آنے لگے۔“

"ارے تو بتاؤ نا۔ میں واقعی نہیں سمجھا۔“

"کب سے کہ رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے میری شادی کرا دو۔“

"مت بکو ۔۔ ہر وقت بے تکی باتیں۔“

"میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔" عمران نے کہا۔

"اگر سنجیدگی سے کہہ رہے ہو تو شائد تم اندھے ہو۔“

" کیوں۔"

"اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے۔“

"اس لئے تو میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے اور میرے کتوں کو ایک نظر سے دیکھے گی۔“

"یار خدا کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ!“

"پہلے تم وعدہ کرو۔“ عمران بولا۔

"اچھا بابا میں ان سے کہوں گا۔“

"بہت بہت شکریہ! مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہو گیا ہے.... کیا کہتے ہیں اسے ... لو یار بھول گیا .... حالانکہ کچھ دیر پہلے اس کا تذکرہ تھا۔“

”چلو چھوڑو کام کی باتیں کرو۔“

"نہیں اسے یاد ہی آجانے دو۔ ورنہ مجھ پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ جائے گا۔“

"عشق۔“ فیاض منہ بنا کر بولا۔

"جیو! شاباش!" عمران نے اسکی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔ ”خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے۔ اچھا اب یہ بتاؤ کہ لاش کی شناخت ہو گئی یا نہیں۔“

"نہیں! نہ تو وہ اس علاقہ کا باشندہ ہے اور نہ جج صاحب کے خاندان والے اس سے واقف ہیں۔“

"یعنی کسی نے اسے پہچانا نہیں۔“

"نہیں!“

"اس کے پاس کوئی ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پر روشنی پڑ سکے۔“

"کوئی نہیں .... مگر ٹھہر وا" فیاض ایک میز کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں چمڑے کا تھیلا تھا۔

"یہ تھیلا ہمیں لاش کے قریب پڑا ملا تھا۔“ فیاض نے کہا۔

عمران تھیلا اس کے ہاتھ سے لے کر اندر کی چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔

"کسی بڑھئی کے اوزار۔“ اس نے کہا۔ ”اگر یہ مقتول ہی کے ہیں تو....ویسے اس شخص کی ظاہری حالت اچھی نہیں....لیکن پھر بھی یہ بڑھئی نہیں معلوم ہوتا ....!"

"کیوں!"

”اس کے ہاتھ بڑے ملائم ہیں اور....ہتھیلیوں میں کھردرا پن نہیں ہے۔ یہ ہاتھ تو کسی مصور یا رنگساز ہی کے ہو سکتے ہیں۔“ عمران بولا۔

”ابھی تک تم نے کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔“ فیاض نے کہا۔

"ایک احمق آدمی سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔" عمران ہنس کر بولا۔

"اس کے زخموں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔" فیاض نے کہا۔

"اگر تم نے میرے زخموں پر مرہم رکھا.... تو میں ان زخموں کو بھی دیکھ لوں گا۔“

"کیا مطلب۔"

"جج صاحب کی لڑکی!" عمران اس طرح بولا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو! "اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پاس ضرور رہتی ہو گی۔“

"ہاں ایک ان کے پاس بھی ہے۔“

”ہے یا تھی۔“

”یہ تو میں نے نہیں پوچھا!“

"خیر پھر پوچھ لینا۔ اب لاش کو اٹھواؤ....پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں زخموں کی گہرائیوں کا خاص خیال رکھا جائے۔“

"کیوں؟“

"اگر زخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسری کے برابر ہوئیں تو سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حرکت ہے۔“

"کیوں فضول بکواس کر رہے ہو۔“

"جو کہہ رہا ہوں .... اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو علی عمران ایم۔ایس۔سی پی۔ ایچ۔ ڈی کی خدمات حاصل کرنا۔ ورنہ کوئی.... کیا نہیں.... ذرا بتاؤ تو میں کون سا لفظ بھول رہا ہوں۔“

"ضرورت!" فیاض بر اسامنہ بنا کر بولا۔

”جیتے رہو.... ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔“

"تمہاری ہدایت پر عمل کیا جائے گا!.... اور کچھ!"

"اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چاہتا ہوں۔" عمران نے کہا۔

پوری عمارت کا چکر لگا لینے کے بعد وہ پھر اسی کمرے میں لوٹ آئے۔

”ہاں بھئی جج صاحب سے ذرا یہ بھی پوچھ لینا کہ انہوں نے صرف اسی کمرے کی ہیئت بدلنے کی کوشش کیوں کر ڈالی ہے جبکہ پوری عمارت اسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے .... کہیں بھی دیوار پر پلاسٹر نہیں دکھائی دیا....لیکن یہاں ہے....“

"پوچھ لوں گا۔“

"اور کنجی کے متعلق بھی پوچھ لینا!.... اور.... اگر وہ محبو بہ یک چشم مل جائے تو اس سے کہنا کہ تیرے نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے!... شائد غالب کی محبوبہ بھی ایک ہی آنکھ رکھتی تھی کیونکہ تیر نیم کش اکلوتی ہی آنکھ کا ہو سکتا ہے!“

"تو اس وقت اور کچھ نہیں بتاؤ گے۔“ فیاض نے کہا۔

"یار بڑے احسان فروش ہو.... فروش.... شائد میں پھر بھول گیا کہ کونسا لفظ ہے۔“

" فراموش!"

"جیو۔ ہاں تو بڑے احسان فراموش ہو۔ اتنی دیر سے بکواس کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتایا ہی نہیں۔“

تبصرے