2: لاش
لاش
کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل فراٹے بھر رہی تھی اور عمران کیر ئیر پر بیٹھا بڑ بڑاتا جا رہا تھا۔ "شلوار کا لٹھا۔ بوسکی کی قمیض۔۔۔۔ شلوار کا بوسکا .... لٹھی۔۔۔۔ لٹھی۔۔۔۔ کیا تھا لا حول ولا قوۃ بھول گیا رکو۔ یار۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔ شاید۔۔۔۔۔" فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔ "بھول گیا!" عمران بولا۔ "کیا بھول گئے۔“ "کچھ غلطی ہو گئی۔“ "کیا غلطی ہو گئی۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔ ”یار کم از کم مجھے تو اُلو نہ بنایا کرو۔“ ” شاید میں غلط بیٹھا ہوا ہوں۔“ عمران کیریئر سے اتر تا ہوا بولا۔ "جلدی ہے یار!" فیاض نے گردن جھٹک کر کہا۔ عمران اس کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ ” یہ کیا؟" فیاض نے حیرت سے کہا.... "بس چلو ٹھیک ہے۔“ "خدا کی قسم تنگ کر ڈالتے ہو۔" فیاض اکتا کر بولا۔ "کون کی مصیبت آگئی!" عمران بھی جھنجھلانے لگا۔ " مجھے بھی تماشا بناؤ گے۔ سیدھے بیٹھو نا!“ "تو کیا میں سر کے بل بیٹھا ہوا ہوں!" "مان جاؤ پیارے!“ فیاض خوشامدانہ لہجے میں بولا۔ ”لوگ ہنسیں گے ہم پر!“ "یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔“ "منہ کے بل گرو گے سڑک پر!" "اگر تقدیر میں یہی ہے! تو بندہ بے بس و نا چار۔" عمران نے درویشانہ انداز میں کہا۔
"خدا سمجھے تم سے۔“ فیاض نے دانت پیس کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کر دی اس کا منہ مغرب کی طرف تھا اور عمران کا مشرق کی طرف! اور عمران اس طرح آگے کی طرف جھکا ہوا تھا جیسے وہ خود ہی موٹر سائیکل ڈرائیو کر رہا ہو! راہ گیر انہیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
"دیکھا! یاد آگیا نا؟" عمران چہک کر بولا۔ "شلوار کا لٹھا اور قمیض کی بوسکی .... میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کوئی غلطی ہو گئی ہے۔“
"عمران! تم مجھے احمق کیوں سمجھتے ہو؟" فیاض نے جھنجھلا کر کہا۔ "کم از کم میرے سامنے تو اس خبطی پن سے باز آجایا کرو۔“
"تم خود ہو گے خبطی!" عمران برا مان کر بولا۔
"آخر اس ڈھونگ سے کیا فائدہ۔“
"ڈھونگ! ارے کمال کر دیا۔ اف فوہ! اس لفظ ڈھونگ پر مجھے وہ بات یاد آئی ہے جسے اب سے ایک سال پہلے یاد آنا چاہئے تھا۔“
فیاض کچھ نہ بولا۔ موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرتی رہی۔
"ہائیں؟" عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔ "یہ موٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہی ہے۔ ارے اس کا ہینڈل کیا ہوا...." پھر اس نے بے تحاشہ چیخنا شروع کر دیا۔ "ہٹو.... بچو.... میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔"
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی! اور جھینپے ہوئے انداز میں راہ گیروں کی طرف دیکھنے لگا۔
"شکر ہے خدا کا کہ خود بخود رک گئی!" عمران اترتا ہوا بڑ بڑایا .... پھر جلدی سے بولا۔
"لا حول ولا قوۃ! اس کا ہینڈل پیچھے ہے! اب موٹر سائیکلیں بھی الٹی بننے لگیں۔“
"کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کر رہے ہو؟" فیاض نے بے بسی سے کہا۔
"تنگ تم کر رہے ہو یا میں!... الٹی موٹر سائیکل پر لئے پھرتے ہو! اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو!"
"چلو بیٹھو۔“ فیاض اسے کھینچتا ہوا بولا۔
موٹر سائیکل پھر چل پڑی۔
"اب تو ٹھیک چل رہی ہے۔“ عمران بڑبڑایا۔
موٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جارہی تھی اور عمران نے ابھی تک فیاض سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جارہا ہے۔
" آج مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہے!" فیاض بولا۔
"لیکن میں آج کل بالکل مفلس ہوں۔“ عمران نے کہا۔
"اچھا! تو کیا میں تم سے ادھار مانگنے جارہا تھا؟“
"پتہ نہیں۔ میں یہی سمجھ رہا تھا! ارے باپ رے پھر بھول گیا! لٹھ مارکا.... پائجامہ.... اور قمیض.... لا حول ولا قوة .... بوسکا...."
"پلیز شٹ اپ..... عمران.... یو فول!" فیاض جھنجھلا اٹھا۔
"عمران...." کیپٹن فیاض نے ٹھنڈی سانس لے کر پھر اسے مخاطب کیا۔
"اوں.... ہا۔“
" تم آخر دوسروں کو بیوقوف کیوں سمجھتے ہو۔“
"کیونکہ.....ہا.... ارے باپ یہ جھٹکے.... یار ذرا چکنی زمین پر چلاؤ!"
”میں کہتا ہوں کہ اب یہ ساری حماقتیں ختم کر کے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔“
"ڈھنگ.... لو یار.... اس ڈھنگ پر بھی کوئی بات یاد آنے کی کوشش کر رہی ہے۔“
”جہنم میں جاؤ۔“ فیاض جھلا کر بولا۔
"اچھا۔" عمران نے بڑی سعادت مندی سے گردن ہلائی۔
موٹر سائیکل ایک کافی طویل و عریض عمارت کے سامنے رک گئی! جس کے پھاٹک پر تین چار باور دی کانسٹیبل نظر آرہے تھے۔
"اب اترو بھی۔" فیاض نے کہا۔
”میں سمجھا شائد اب تم مجھے ہینڈل پر بٹھاؤ گے۔“ عمران اترتا ہوا بولا۔
وہ اس وقت ایک دیہی علاقہ میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیادہ دور نہ تھا یہاں بس یہی ایک عمارت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے کچے پکے مکانوں پر مشتمل تھی! اس عمارت کی بناوٹ طرز قدیم سے تعلق رکھتی تھی! چاروں طرف سرخ رنگ کی لکھوری اینٹوں کی کافی بلند دیواریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھاٹک تھا جو غالباً صدر دروازے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہو گا۔
کیپٹن فیاض عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں داخل ہو گیا.... اب بھی عمران نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ اسے کہاں اور کس مقصد کے تحت لایا ہے۔
دونوں ایک طویل دالان سے گذرتے ہوئے ایک کمرے میں آئے اچانک عمران نے اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لئے اور منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک لاش دیکھ لی تھی جو فرش پر اوندھی پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا۔
"إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون!" وہ کپکپاتی آواز میں بڑبڑا رہا تھا۔
”خدا اس کے متعلقین کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اسے صبر کی توفیق عطا فرمائے۔“
"میں تمہیں دعائے خیر کرنے کے لئے نہیں لایا۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
” تجہیز و تکفین کے لئے چندہ وہاں بھی مانگ سکتے تھے آخر اتنی دور کیوں گھسیٹ لائے۔“
"یار عمران خدا کے لئے بور نہ کرو! میں تمہیں اپنا ایک بہترین دوست سمجھتا ہوں۔" فیاض نے کہا۔
"میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ مگر پیارے پانچ روپے سے زیادہ نہ دے سکوں گا۔ ابھی.... لٹھی کا بوسکا خریدنا ہے!.... کیا لٹھی .... لو یار پھر بھول گیا! کیا مصیبت ہے۔"
فیاض چند لمحے کھڑا اسے گھورتا رہا پھر بولا۔
"یہ عمارت پچھلے پانچ برسوں سے بند رہی ہے۔ کیا ایسی حالت میں یہاں ایک لاش کی موجودگی حیرت انگیز نہیں ہے۔“
”بالکل نہیں۔“ عمران سر ہلا کر بولا۔ "اگر یہ لاش کسی امرود کے درخت پر پائی جاتی تو میں اسے عجو بہ تسلیم کر لیتا۔"
"یار تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔"
” میں شروع ہی سے رنجیدہ ہوں۔" عمران نے ٹھنڈی سانس لے کہا۔
"رنجیدہ نہیں سنجیدہ!" فیاض پھر جھنجھلا گیا۔
عمران خاموشی سے لاش کی طرف دیکھ رہا تھا.... وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ ” تین زخم۔“
فیاض اسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا۔
"پہلے پوری بات سن لو!" فیاض نے اسے مخاطب کیا۔
"ٹھہرو۔" عمران جھکتا ہوا بولا۔ وہ تھوڑی دیر تک زخموں کو غور سے دیکھتا رہا پھر سر اٹھا کربولا۔
"پوری بات سنانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ اس لاش کے متعلق تم کیا بتا سکتے ہو۔“
"آج بارہ بجے دن کو یہ دیکھی گئی!" فیاض نے کہا۔
"اونہہ! میں زیادہ عقل مندانہ جواب نہیں چاہتا۔" عمران ناک سکوڑ کر بولا۔
"میں یہ جانتا ہوں کہ کسی نے اس پر تین وار کئے ہیں۔“
"اور کچھ !" عمران اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"اور کیا؟“ فیاض بولا۔
"مگر.... شیخ چلی دوئم.... یعنی علی عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی کا خیال کچھ اور ہے۔“
"کیا؟"
"سن کر مجھے الو سہی احمق بٹا دو سمجھنے لگو گے۔“
"ارے یار کچھ بتاؤ بھی تو سہی۔"
”اچھا سنو! قاتل نے پہلا وار کیا! پھر پہلے زخم سے پانچ پانچ انچ کا فاصلہ ناپ کر دوسرا اور تیسرا اوار کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ زخم بالکل سیدھ میں رہیں۔ نہ ایک سوت د ادھر نہ سوت ادھر ۔“
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں