21: کلب میں تصادم
کلب میں تصادم
وہ آدمی ہینڈ بیگ لئے ہوئے جیسے ہی باہر نکلا کلب کی کمپاؤنڈ کے پارک سے دو آدمی اس کی طرف بڑھے۔
"کیا رہا۔" ایک نے پوچھا۔
"مل گیا۔“ بیگ والے نے کہا۔
"کاغذات ہیں بھی یا نہیں۔“
"میں نے کھول کر نہیں دیکھا۔“
"گدھے ہو۔“
”وہاں کیسے کھول کر دیکھتا۔“
"لاؤ....ادھر لاؤ۔“ اس نے ہینڈ بیگ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا! پھر وہ چونک کر بولا۔
”اوہ! یہ اتنا وزنی کیوں ہے۔“
اس نے بیگ کھولنا چاہا لیکن اس میں قفل لگا ہوا تھا۔
”چلو یہاں سے“ تیسرا بولا ”یہاں کھولنے کی ضرورت نہیں۔“
کمپاؤنڈ کے باہر پہنچ کر وہ ایک کار میں بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک کار ڈرائیو کرنے لگا۔
شہر کی سڑکوں سے گذر کر کار ایک ویران راستے پر چل پڑی آبادی سے نکل آنے کے بعد انہوں نے کار کے اندر روشنی کر دی۔
ان میں سے ایک جو کافی معمر مگر اپنے دونوں ساتھیوں سے زیادہ طاقتور معلوم ہو تا تھا ایک پتلے سے تار کی مدد سے ہینڈ بیگ کا قفل کھولنے لگا اور پھر جیسے ہی ہینڈ بیگ کا فلیپ اٹھایا گیا پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دونوں آدمی بے ساختہ اچھل پڑے۔ کوئی چیز بیگ سے اچھل کر ڈرائیور کی
کھوپڑی سے ٹکرائی اور کار سڑک کے کنارے کے ایک درخت سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ورنہ کار کے ٹکرا جانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔ تین بڑے بڑے مینڈک کار میں اچھل رہے تھے۔
بوڑھے آدمی کے منہ سے ایک موٹی سی گالی نکلی اور دوسرا ہنسنے لگا۔
"شپ اپ“ بوڑھا حلق کے بل چیخا۔ " تم گدھے ہو۔ تمہاری بدولت.
"جناب میں کیا کرتا! میں اسے وہاں کیسے کھول سکتا تھا! اس کا بھی تو خیال تھا کہ کہیں پولیس نہ لگی ہو۔"
"بکواس مت کرو۔ پہلے ہی اطمینان کر چکا تھا وہاں پولیس کا کوئی آدمی نہیں تھا! کیا تم مجھے معمولی آدمی سمجھتے ہو۔ اب اس لونڈے کی موت آگئی ہے۔ ارے تم گاڑی روک دو۔" کار رک گئی۔
بوڑھا تھوڑی دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔
"کلب میں اس کے ساتھ اور کون تھا۔“
"ایک خوبصورت سی عورت! دونوں شراب پی رہے تھے۔“
”غلط ہے! عمران شراب نہیں پیتا۔“
"ہی رہا تھا جناب۔"
بوڑھا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا۔
"چلو! واپس چلو۔ وہ کچھ دیر بعد بولا۔ "میں اسے وہیں کلب میں مار ڈالوں گا۔" کار پھر شہر کی طرف مڑی۔
"میرا خیال ہے کہ وہ اب تک مر چکا ہو گا۔" بوڑھے کے قریب بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا نے .
"نہیں! وہ تمہاری طرح احمق نہیں ہے؟" بوڑھا جھنجھلا کر بولا۔ ”اس نے ہمیں دھوکا دیا ہے تو خود بھی غافل نہ ہو گا۔“
"تب تو وہ کلب ہی سے چلا گیا ہو گا۔“
"بحث مت کرو۔" بوڑھے نے گرج کر کہا۔ "میں اسے ڈھونڈ کر ماروں گا۔ خواہ وہ اپنے گھر ہی میں کیوں نہ ہو۔“
عمران چند لمحے بیٹھا رہا پھر اٹھ کر تیزی سے وہ بھی باہر نکلا اور اس نے کمپاؤنڈ کے باہر ایک کار کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی! وہ پھر اندر واپس آگیا۔
"کہاں بھاگتے پھر رہے ہو۔" لیڈی جہانگیر نے پوچھا اس کی آنکھیں نشے سے بوجھل ہو رہی تھیں۔
"ذرا کھانا ہضم کر رہا ہوں۔" عمران نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا....لیڈی جہا نگیر آنکھیں بند کر کے بنسنے لگی۔
عمران کی نظریں بدستور گھڑی پر جمی رہیں....وہ پھر اٹھا اب وہ ٹیلیفون بو تھ کی طرف جارہا تھا۔ اس نے ریسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کئے اور ماؤتھ پیس میں بولا۔
"ہیلو سوپر فیاض....میں عمران بول رہا ہوں....بس اب روانہ ہو جاؤ۔“
ریسیور رکھ کر وہ پھر ہال میں چلا آیا لیکن وہ اس بار لیڈی جہانگیر کے پاس نہیں بیٹھا تھا۔ چند لمحے کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر ایک ایسی میز پر جا بیٹھا جہاں تین آدمی پہلے ہی سے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ تینوں اسکے شناسا تھے اس لئے انہوں نے برا نہیں مانا۔
شائد پندہ منٹ تک عمران ان کے ساتھ قہقہے لگاتا رہا لیکن اس دوران بار بار اسکی نظریں داخلے کے دروازے کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔
اچانک اسے دروازے میں وہ بوڑھا دکھائی دیا جس سے اس نے چند روز قبل کاغذات والا ہینڈ بیگ چھینا تھا۔ عمران اور زیادہ انہماک سے گفتگو کرنے لگا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس نے اپنے
داہنے شانے میں کسی چیز کی چبھن محسوس کی اس نے کنکھیوں سے داہنی طرف دیکھا! بوڑھا اس سے لگا ہوا کھڑا تھا اور اسکا بایاں ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا اور اسی جیب میں رکھی ہوئی کوئی سخت چیز عمران کے شانے میں چھ رہی تھی! عمران کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ ریوالور کی نالی ہی ہو سکتی ہے۔
"عمران صاحب!" بوڑھا بڑی خوش اخلاقی سے بولا۔ ”کیا آپ چند منٹ کیلئے باہر تشریف لے چلیں گے۔“
"آہا چچا جان!" عمران چہک کر بولا۔ "ضرور ضرور! مگر مجھے آپ سے شکایت ہے اس لئے آپ کو بھی کوئی شکایت نہ ہونی چاہئے۔“
"آپ چلئے تو" بوڑھے نے مسکرا کر کہا۔ ”مجھے اس گدھے کی حرکت پر افسوس ہے۔“
عمران کھڑا ہو گیا! لیکن اب ریوالور کی نال اس کے پہلو میں چبھ رہی تھی۔ وہ دونوں باہر آئے....پھر جیسے ہی وہ پارک میں پہنچے بوڑھے کے دونوں ساتھی بھی پہنچ گئے۔
"کاغذات کہاں ہیں۔" بوڑھے نے عمران کا کالر پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ پارک میں سناٹا تھا۔ دفعتاً عمران نے بوڑھے کا بایاں ہاتھ پکڑ کر ٹھوڑی کے نیچے ایک زور دار گھونسہ رسید کیا۔ بوڑھے کا ریوالور عمران کے ہاتھ میں تھا اور بوڑھا لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے اسے سنبھال لیا۔ "میں کہتا ہوں وہ دس ہزار کہاں ہیں۔“ عمران نے چیخ کر کہا۔
اچانک مہندی کی باڑھ کے پیچھے سے آٹھ دس آدمی اچھل کر ان تینوں پر آپڑے اور پھر ایک خطرناک جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔ وہ تینوں بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے۔
"سوپر فیاض۔" عمران نے چیخ کر کہا "ڈاڑھی والا۔"
لیکن ڈاڑھی والا اچھل کر بھاگا۔ وہ مہندی کی باڑھ پھلانگنے ہی والا تھا کہ عمران کے ریوالور سے شعلہ نکلا گولی ٹانگ میں لگی اور بوڑھا مہندی کی باڑھ میں پھنس کر رہ گیا۔
"ارے باپ رے باپ“ عمران ریوالور پھینک کر اپنا منہ پیٹنے لگا۔
وہ دونوں پکڑے جاچکے تھے! فیاض زخمی بوڑھے کی طرف جھپٹا جو اب بھی بھاگ نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا..... فیاض نے ٹانگ پکڑ کر مہندی کی باڑ سے گھسیٹ لیا۔
"یہ کون؟" فیاض نے اس کے چہرے پر روشنی ڈالی۔ فائر کی آواز سن کر پارک میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔
بوڑھا بے ہوش نہیں ہوا تھا وہ کسی زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اسکی مصنوعی ڈاڑھی نوچ ڈالی۔
"ہائیں!" فیاض تقریبا چیخ پڑا۔ ”سر جہانگیر!“
سر جہانگیر نے پھر اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن عمران کی ٹھوکر نے اسے باز رکھا۔
"ہاں سر جہانگیر!" عمران بڑبڑایا۔ ”ایک غیر ملک کا جاسوس.... قوم فروش غدار....."
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں