15: بوڑھے کا ہینڈبیگ
بوڑھے کا ہینڈبیگ
"بوڑھا پاگل نہیں ہے اس کے اندازے غلط نہیں ہوتے۔“
"اونہہ ہو گا۔" دوسرا میز پر خالی گلاس پٹختا ہوا بولا۔ "صحیح ہو یا غلط سب جہنم میں جائے لیکن تم اپنی کہو۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات ہو گئی تو کیا کرو گے۔“
”اوہ!“ جیکٹ والا ہنسنے لگا۔ ”معاف کیجئے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔“
"ٹھیک! لیکن اگر وہ پولیس تک پہنچ گئی تو۔“
"وہ ہر گز ایسا نہیں کر سکتی....بیان دیتے وقت اسے اس کا اظہار بھی کرنا پڑیگا کہ وہ ایک رات میرے ساتھ اس مکان میں بسر کر چکی ہے۔ اور پھر میرا خیال ہے کہ شائد اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے۔"
عمران کافی کا آرڈر دے کر دوسرے چیونگم سے شغل کرنے لگا اس کے چہرے سے ایسا معلوم ہور ہا تھا جیسے وہ سارے ماحول سے قطعی بے تعلق ہو۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اسکی یاد داشت ہضم کرتی جارہی تھی۔
"تو کیا آج بوڑھا آئے گا۔" دوسرے آدمی نے پوچھا۔
”ہاں! آج فیصلہ ہو جائے۔“ جیکٹ والے نے کہا۔
دونوں اٹھ گئے۔ عمران نے اپنے حلق میں بچی کھچی کافی انڈیل لی۔ بل وہ پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔ وہ دونوں باہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو گئے اور پھر انہوں نے ایک ٹیکسی رکوائی کچھ دیر بعد ان کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی جارہی تھی جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا ہوا سر کھجا رہا تھا۔ حماقت انگیز حرکتیں اس سے اکثر تنہائی میں بھی سرزد ہو جاتی تھیں۔
ار کھیم لین میں پہنچ کر انگلی ٹیکسی رک گئی! وہ دونوں اترے اور ایک گلی میں گھس گئے۔ یہاں عمران ذرا سا چوک گیا! اس نے انہیں گلی میں گھستے ضرور دیکھا تھا۔ لیکن جتنی دیر میں وہ ٹیکسی کا کرایہ چکاتا انہیں کھو چکا تھا!
گلی سنسان پڑی تھی۔ آگے بڑھا تو داہنے ہاتھ کو ایک دوسری گلی دکھائی دی۔ اب اس دوسری گلی کو طے کرتے وقت اسے احساس ہوا کہ وہاں تو گلیوں کا جال بچھا ہوا تھا! لہذا سر مارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا! وہ اس گلی کے سرے سے تھوڑے ہی فاصلہ پر رک کر ایک بک سٹال کے شوکیس میں لگی ہوئی کتابوں کے رنگارنگ گرد پوش دیکھنے لگا شائد پانچ ہی منٹ بعد ایک ٹیکسی ٹھیک اس گلی کے دہانے پر رکی اور ایک معمر آدمی اتر کر کرایہ چکانے لگا۔ اس کے چہرے پر بھورے رنگ کی داڑھی تھی۔ لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ دیکھ کر چونکا۔ آنکھیں بھی جانی پہچانی سی معلوم ہو رہی تھیں۔
جیسے ہی وہ گلی میں گھسا عمران نے بھی اپنے قدم بڑھائے۔ کئی گلیوں سے گذرنے کے بعد بوڑھا ایک دروازے پر رک کر دستک دینے لگا! عمران کافی فاصلہ پر تھا! اور تاریکی ہونے کی وجہ سے دیکھ لئے جانے کا بھی خدشہ نہیں تھا وہ ایک دیوار سے چپک کر کھڑا ہو گیا! ادھر دروازہ کھلا اور بوڑھا کچھ بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ دروازہ پھر بند ہو گیا تھا....عمارت دو منزلہ تھی عمران سر کھجا کر رہ گیا۔ لیکن وہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کرتا
ہوا دروازے تک پہنچ گیا۔ اور پھر اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ لینی شروع کر دی لیکن شائد اس کا ستارہ ہی گردش میں آگیا تھا دوسرے ہی لمحے میں دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور دونوں آدمی اسکے سامنے کھڑے تھے۔ اندر مدھم سی روشنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھائی دیئے لیکن وہ کافی مضبوط ہاتھ پیر کے معلوم ہوتے تھے۔
"کون ہے؟" ان میں سے ایک تحکمانہ لہجے میں بولا۔
"مجھے دیر تو نہیں ہوئی۔" عمران تڑ سے بولا۔
دوسری طرف سے فوراً ہی جواب نہیں ملا غالباً یہ سکوت ہچکچاہٹ کا ایک وقفہ تھا!
"تم کون ہو!" دوسری طرف سے سوال پھر دہرایا گیا!
"تین سو تیرہ۔" عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا....لیکن دوسرے لمحے اسے دھیان نہیں تھا! اچانک اسے گریبان سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا گیا۔ عمران نے مزاحمت نہیں کی۔
"اب بتاؤ تم کون ہو۔" ایک نے اسے دھکا دے کر کہا۔
”اندر لے چلو۔“ دوسرا بولا۔
وہ دونوں اسے دھکے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے یہاں سات آدمی ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بوڑھا جس کا تعاقب کرتا ہوا عمران یہاں تک پہنچا تھا۔ شائد سر گردہ کی
حیثیت رکھتا تھا کیونکہ وہ میز کے آخری سرے پر تھا۔
وہ سب عمران کو تحیر آمیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ لیکن عمران دونوں آدمیوں کے درمیان میں کھڑا چمڑے کی جیکٹ والے کو گھور رہا تھا۔
"آہا!" یکا یک عمران نے قہقہہ لگایا اور اپنے گول گول دیدے پھرا کر اس سے کہنے لگا۔ ” میں تمہیں کبھی نہیں معاف کروں گا۔ تم نے میری محبوبہ کی زندگی برباد کر دی!"
"کون ہو تم میں تمہیں نہیں پہچانتا۔" اس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا۔
"لیکن میں تمہیں اچھی طرح پہچانتا ہوں! تم نے میری محبوبہ پر ڈورے ڈالے میں کچھ نہیں بولا! تم نے ایک رات اس کے ساتھ بسر کی میں پھر بھی خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا کہ تم اس سے ملنا جلنا چھوڑ دو۔“
"تم یہاں کیوں آئے ہو۔“ دفعتہً اب بوڑھے نے سوال کیا اور ان دونوں کو گھورنے لگا جو عمران کو لائے تھے! انہوں نے سب کچھ بتا دیا۔ اس دوران میں عمران برابر اپنے مخاطب کو گھورتا رہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دوسرے لوگوں سے اسے واقعی کوئی سروکار نہ ہو۔
پھر اچانک کسی کا گھونسہ عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا کئی قدم پیچھے کھسک گیا! اس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور اسے اس طرح جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفاقاً اس کے سر سے گر گئی ہو وہ اب بھی جیکٹ والے کو گھورے جارہا تھا۔
"میں کسی عشقیہ ناول کے سعادت مند رقیب کی طرح تمہارے حق میں دست بردار ہو سکتا ہوں!" عمران نے کہا۔
"بکواس مت کرو۔" بوڑھا چیخا۔ ”میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں! کیا اس رات کو تم ہی وہاں تھے۔"
عمران نے اس کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارہ نہ کی۔
"یہ زندہ بچ کر نہ جانے پائے۔" بوڑھا کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
"مگر شرط یہ ہے۔“ عمران مسکرا کر بولا۔ ”میت کی بے حرمتی نہ ہونے پائے۔“
اس کے حماقت آمیز اطمینان میں ذرہ برابر بھی فرق نہ ہونے پایا تھا....تین چار آدمی اس کی طرف لپکے۔ عمران دوسرے ہی لمحے ڈپٹ کر بولا۔ "ہینڈز اپ۔" ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے
نکلا۔ اس کی طرف جھپٹنے والے پہلے تو ٹھٹکے لیکن پھر انہوں نے بے تحاشہ ہنسنا شروع کر دیا۔ عمران کے ہاتھ میں ریوالور کی بجائے ربڑ کی ایک گڑیا تھی! پھر بوڑھے کی گرجدار آواز نے انہیں خاموش کر دیا اور وہ پھر عمران کی طرف بڑھے۔ جیسے ہی اس کے قریب پہنچے عمران نے گڑیا کا پیٹ دبا دیا اس کا منہ کھلا اور پہلے رنگ کا گہرا غبار اس میں سے نکل کر تین چار فٹ کے دائرے میں پھیل گیا....وہ چاروں بے تحاشہ کھانستے ہوئے وہیں ڈھیر ہو گئے۔
"جانے نہ پائے!" بوڑھا پھر چیخا۔
دوسرے لمحے میں عمران نے کافی وزنی چیز الیکٹرک لیمپ پر کھینچ ماری....ایک زور دار آواز کے ساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔
عمران اپنے ناک پر رومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کے سرے کی طرف کھسک رہا تھا کمرے میں اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ شائد وہ سب اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسہ باری کی مشق کرنے لگے تھے عمران کا ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے پر رینگ گیا اور اسے ناکامی نہیں ہوئی جس چیز پر شروع ہی سے اس کی نظر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ آچکی تھی۔ یہ بوڑھے کا چرمی ہینڈ بیگ تھا۔
واپسی میں کسی نے کمرے کے دروازے پر اسکی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی لیکن اپنے سامنے کے دو تین دانتوں کو روتا ہوا ڈھیر ہو گیا۔ عمران جلد سے جلد کمرے سے نکل جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے حلق میں بھی جلن ہونے لگی تھی۔ گڑیا کے منہ سے نکلا ہوا غبار اب پورے کمرے میں پھیل گیا تھا
کھانسیوں اور گالیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہواوہ بیرونی درواز ہے تک پہنچ گیا۔ گلی میں نکلتے ہی وہ قریب ہی کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا۔ فی الحال سڑک پر نکلنا خطر ناک تھا۔ وہ کافی دیر تک پیچ در پیچ گلیوں میں چکراتا ہوا ایک دوسری سڑک پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھا ہوا اس طرح اپنے ہونٹ رگڑ رہا تھا جیسے سچ مچ اپنی کسی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ اسٹک کے دھبے چھڑا رہا ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں