10: پر اسرار مزار
پر اسرار مزار
عمران کو اس سلسلے میں پولیس یا محکمہ سراغرسانی کی مشغولیات کا کوئی علم نہیں تھا اس نے فیاض سے یہ بھی معلوم کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ پولیس نے ان حادثات کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے۔
عمران نے کاغذ کا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا اور دوسرا سوٹ پہن کر دوبارہ باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل اسی قصبہ کی طرف جارہی تھی۔ جہاں وہ "خوفناک عمارت" واقع تھی قصبے میں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت تھی۔ عمران اس خاندان کے ایک ذمہ دار آدمی سے ملا جس نے عمارت جج صاحب کے ہاتھ فروخت کی تھی۔
"اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔“ اس نے بتایا۔ "ایاز صاحب نے وہ عمارت ہم سے خریدی تھی۔ اس کے بعد مرنے سے پہلے وہ اسے شہر کے کسی جج صاحب کے نام قانونی طور پر منتقل کر گئے۔“
"ایاز صاحب کون تھے۔ پہلے کہاں رہتے تھے۔" عمران نے سوال کیا۔
"ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ عمارت خرید نے کے بعد تین سال تک زندہ رہے لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہاں رہتے تھے! ان کے ساتھ ایک نوکر تھا جو اب بھی عمارت کے سامنے ایک حصے میں مقیم ہے۔“
"یعنی قبر کا وہ مجاور!" عمران نے کہا اور بوڑھے آدمی نے اثبات میں سر ہلا دیا وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
”وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے دریافت کی تھی۔ ہمارے خاندان والوں کو تو اس کا علم نہیں تھا۔ وہاں پہلے کبھی کوئی قبر نہیں تھی۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔"
”اوہ!“ عمران گھورتا ہوا بولا۔ ”بھلا قبر کس طرح دریافت ہوئی تھی۔“
”انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس جگہ کوئی شہید مرد دفن ہیں۔ دوسرے ہی دن قبر بنانی شروع کر دی۔“
"خود ہی بنانی شروع کردی۔“ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
”جی ہاں وہ اپنا سارا کام خود ہی کرتے تھے۔ کافی دولت مند بھی تھے! لیکن انہیں کنجوس نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ دل کھول کر خیرات کرتے تھے۔“
”جس کمرے میں لاش ملی تھی اس کی دیواروں پر پلاسٹر ہے۔ لیکن دوسرے کمروں میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔“
"پلاسٹر بھی ایاز صاحب ہی نے کیا تھا۔“
"خود ہی۔“
”جی ہاں!“
"اس پر یہاں قصبے میں تو بڑی چہ میگوئیاں ہوئی ہوں گی۔“
"قطعی نہیں جناب!...اب بھی یہاں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایاز صاحب کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ ان کا نوکر بھی....بزرگی سے خالی نہیں۔“
"کبھی ایسے لوگ بھی ایاز صاحب سے ملنے کے لئے آئے تھے جو یہاں والوں کے لئے اجنبی رہے ہوں۔“
"جی نہیں....مجھے تو یاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان سے کبھی کوئی ملنے کے لئے نہیں آیا۔“
"اچھا بہت بہت شکریہ!" عمران بوڑھے سے مصافحہ کر کے اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔
اب وہ اسی عمارت کی طرف جارہا تھا اور اس کے ذہن میں بیک وقت کئی خیال تھے! ایاز نے وہ قبر خود ہی بنائی تھی! اور کمرے میں پلاسٹر بھی خود ہی کیا تھا۔ کیا وہ ایک اچھا معمار بھی تھا؟ قبر وہاں پہلے نہیں تھی۔ وہ ایاز ہی کی دریافت تھی۔ اس کا نوکر آج بھی قبر سے چمٹا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اسی ایک کمرے میں پلاسٹر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
عمران عمارت کے قریب پہنچ گیا۔ بیرونی بیٹھک جس میں قبر کا مجاور رہتا تھا کھلی ہوئی تھی اور وہ خود بھی موجود تھا۔ عمران نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ متوسط عمر کا ایک قوی ہیکل آدمی تھا چہرے پر گھنی داڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ شائد وہ ہمیشہ ایسی ہی رہتی تھیں۔
عمران نے دو تین بار جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور پھر اس کے چہرے پر اس پرانے احمق پن کے آثار ابھر آئے۔
”کیا بات ہے۔“ اسے دیکھتے ہی نوکر نے للکارا۔
"مجھے آپ کی دعا سے نوکری مل گئی ہے۔" عمران سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ "سوچا کچھ آپ کی خدمت کرتا چلوں۔“
"بھاگ جاؤ۔“ قبر کا مجاور سرخ سرخ آنکھیں نکالنے لگا۔
"اب اتنا نہ تڑپائیے!" عمران ہاتھ جوڑ کر بولا ۔ ”بس آخری درخواست کروں گا۔“
”کون ہو تم....کیا چاہتے ہو۔“ مجاور یک بیک نرم پڑ گیا۔
"لڑکا۔ بس ایک لڑکا۔ بغیر بچے کے گھر سونا لگتا ہے۔ یاحضرت تیںس سال سے بچے کی آرزو ہے۔“
"تیںس سال! تمہاری عمر کیا ہے؟" مجاور اسے گھور نے لگا!
"پچیس سال!“
"بھا گو! مجھے لونڈا بناتے ہو! ابھی بھسم کر دوں گا...."
"آپ غلط سمجھے یاحضرت! میں اپنے باپ کے لئے کہہ رہا تھا....دوسری شادی کرنے والے ہیں؟“
"جاتے ہو یا...." مجاور اٹھتا ہوا بولا۔
"سر کار...." عمران ہاتھ جوڑ کر سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ ”پولیس آپ کو بے حد پریشان کرنے والی ہے۔“
"بھاگ جاؤ! پولیس والے گدھے ہیں! وہ فقیر کا کیا بگاڑیں گے!“
"فقیر کے زیر سایہ دو خون ہوئے ہیں۔“
"ہوئے ہوں گے! پولیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ ایک مسٹنڈے کو لے کر یہاں کیوں آئی تھی۔“
"یا حضرت پولیس واقعی گدھی ہے! آپ ہی کچھ رہنمائی فرمائیے۔“
”تم خفیہ پولیس مین ہو۔“
"نہیں سرکار! میں ایک اخبار کا نامہ نگار ہوں۔ کوئی نئی خبر مل جائے گی تو پیٹ بھرے گا۔“
"ہاں اچھا بیٹھ جاؤ۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ مکان جہاں ایک بزرگ کا مزار ہے۔ بدکاری کا اڈہ بنے پولیس کو چاہئے کہ اسکی روک تھام کرے“
"یا حضرت میں بالکل نہیں سمجھا۔" عمران مایوسی سے بولا۔
"میں سمجھاتا ہوں۔" مجاور اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ "چودہ تاریخ کو جج صاحب کی لونڈیا اپنے ایک یار کو لے کر یہاں آئی تھی....اور گھنٹوں اندر رہی!"
"آپ نے اعتراض نہیں کیا....میں ہوتا تو دونوں کے سر پھاڑ دیتا۔ تو بہ تو بہ اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر...." عمران اپنا منہ پیٹنے لگا!
"بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا....کیا کروں! میرے مرشد یہ مکان ان لوگوں کو دے گئے ہیں ورنہ بتا دیتا۔“
”آپ کے مرشد؟“
”ہاں....حضرت ایاز رحمتہ اللّٰہ علیہ! وہ میرے پیر تھے! اس مکان کا یہ کمرہ مجھے دے گئے ہیں۔ تاکہ مزار شریف کی دیکھ بھال کرتا رہوں؟“
"ایاز صاحب کا مزار شریف کہاں ہے۔" عمران نے پوچھا۔
"قبرستان میں....ان کی تو وصیت تھی کہ میری قبر برابر کر دیجائے۔ کوئی نشان نہ رکھا جائے۔“
"تو جج صاحب کی لڑکی کو پہچانتے ہیں آپ!"
"ہاں پہچانتا ہوں ! وہ کانی ہے۔“
”ہائے!" عمران نے سینے پر ہاتھ مارا....اور مجاور اسے گھورنے لگا۔
”اچھا حضرت! چودہ کی رات کو وہ یہاں آئی تھی اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی۔“
”ایک نہیں ابھی ہزاروں ملیں گی۔“ مجاور کو جلال آگیا! ”مزار شریف کی بے حرمتی ہے!“
"مگر سرکار! ممکن ہے کہ وہ اس کا بھائی رہا ہو!“
"ہرگز نہیں! جج صاحب کے کوئی لڑکا نہیں ہے۔“
"تب تو پھر معاملہ....ہپ!" عمران اپنا داہنا کان کھجانے لگا!
عمران وہاں سے بھی چل پڑا وہ پھر قصبے کے اندر واپس جارہا تھا۔ دو تین گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کر تا رہا اور پھر شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں